Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج)
3 - 198
تجلیّ المشکوٰۃلانارۃاسئلۃالزّکوٰۃ (۱۳۰۷ھ)

(زکوٰۃ کے مسائل کو واضح کرنے کے لئے چراغ کی چمک)
مسئلہ ۱۲تا۱۸: از گونڈہ بہرائچ ، محلہ چھاؤنی ، مکان مولوی اشرف علی صاحب مرسلہ حضرت سیّد حسین حیدر میاں صاحب دامت بر کاتہم     ۱۳جمادی الاولیٰ۱۳۰۷ھ
بسم اﷲالرحمن الرحیم ط
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین لُطف اﷲبہم اجمعین، ان مسائل میں : 

مسئلہ اولیٰ: زکوٰۃ بتدریج دی جائے یایکمشت دینے میں کیا نقصان ہے؟ بینواتوجّروا ۔
الجواب :اگر زکوٰۃ پیشگی ادا کرتا ہے یعنی ہنوز حولانِ حول نہ ہُوا کہ وجوب ادا ہوجاتا، خواہ یُوں کہ ابھی نصاب نامی فارغ عن الحوائج کا مالک ہُوئے سال تمام نہ ہُوا، یا یُوں کہ سالِ گزشتہ کی دے چکا ہے اور سالِ رواں ہنوز ختم پر نہ آیا تو جب تک انتہائے سال نہ ہو بلاشبہ تفریق و تدریج کا اختیارِ کامل رکھتا ہے جس میں اصلاً کوئی نقصان نہیں کہ حولانِ حول سے پہلے زکوٰۃ واجب الادا نہیں ہوتی۔ درمختار میں ہے :
شرط افتراض ادا ئھا حولان الحول وھو فی ملکہ۔ ۱؎
ادائیگیِ زکوٰۃ کے فرض ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی ملکیت پر سال گزرے۔ (ت)
(۱؎درمختار  کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی  ۱ /۱۳۰)
تو ابھی شرع اس سے تقاضا ہی نہیں فرماتی، یکمشت دینے کا مطالبہ کہاں سے ہوگا، یہ پیشگی دینا تبرع ہے
ولا جبر  علی المتبرع وھذاظاھر جدّا
 (نفلاً دینے پر جبر نہیں اور یہ نہایت ہی واضح ہی ۔ ت ) اور اگر سال گزر گیا اور زکوٰۃ واجب الادا ہوچکی تو اب تفریق و تدریج ممنوع ہوگی بلکہ فوراًتمام و کمال زر واجب الادا ادا کرے کہ مذہبِ صحیح و معتمدو مفتی پر ادائے زکوٰۃ کا وجوب فوری ہے جس میں تا خیر باعثِ گناہ۔ ہمارے ائمہ ثلٰثہ رضی اﷲتعالٰی عنہم سے اس کی تصریح ثابت۔
رواہ الفقیہ ابو جعفر عن الامام الاعظم و ذکرہ ابو یوسف فی الامالی کما فی الخلاصۃ وفی منتقی الامام ابی عبداﷲ محمد بن عبداﷲالحاکم الشھید رحمہ اﷲتعالٰی علی ما نقل القھستانی عن المحیط انہ علی الفور عند ھما وعن محمد لا تقبل شھادۃ من اخّر، ۲؎ فھذاظاھر فی انہ ھوالمذھب المروی عن الشیخین فی ظاھر الروایۃ۔
یہی فقیہ ابو جعفر نے امامِ اعظم سے روایت کیا، امام ابویوسف نے اسے امالی میں ذکر کیا جیسا کہ خلاصہ میں ہے اور امام ابوعبداﷲمحمدبن عبداﷲالحاکم الشہید رحمہ اﷲتعالٰی کی منتقی میں ہے جیسا کہ قہستانی نے محیط سے نقل کیا ہے وُہ یہ ہے کہ شیخین کے نزدیک ادائیگی زکوٰۃ علی الفورلازم ہوجاتی ہے، اور امام محمد سے ہے کہ جس نے ادائیگی میں تاخیر کی اس کی شہادت قبول نہ ہوگی۔ یہ بات اس بارے میں واضح ہے کہ شیخین سے یہی مذہب ظاھرالرویۃ میں مروی ہے۔(ت)
(۲؎ جامع الرموز      کتاب الزکٰوۃ         مکتبہ اسلامیہ گنبدقاموس ایران     ۲ /۳۰۱)
فتح القدیرمیں ہے :
یلزم بتاخیرہ من غیرضرورۃ الاثم کما صرح بہ الکرخی والحاکم الشھید فی المنتقی، وھو عین ما ذکرہ الفقیۃ ابو جعفر عن ابی حنیفۃرضی اﷲتعالٰی عنہ انہ یکرہ ان یؤخر ھا من غیر عذرفان کراھۃ التحریم ھی المحمل عنداطلاق اسمھا عنھم وکذاعن ابی یوسف وعن محمد ترد شھادتہ بتا خیر الزکوٰۃ حق الفقراء فقد ثبت عن الثلثہ وجوب فوریۃالزکوٰۃ ۱؎اھ مخلصا۔
بغیر مجبوری کے تاخیر سے گناہ لازم آتا ہے جیسا کہ امام کرخی اور حاکم شہید نے المنتقی میں تصریح کی ہے۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جس کا تذکرہ فقیہ ابوجعفر نے امام ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالےٰ عنہ سے کیا ہے کہ بغیر عذر ادائیگی کو مؤخر کرنا مکروہ تحریمہ ہے کیونکہ جب کر اہت کا ذکر مطلقاً ہو تو اس وقت وہ مکروہِ تحریمی پر محمول ہوتی ہے ،                   امام ابو یوسف سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام محمد فرماتے ہیں کہ تا خیرِ زکوٰۃ کی وجہ سے گواہی مرد ود ہوجائیگی کیونکہ زکوٰۃ فقراء کا حق ہے، تو تینوں بزرگون سے یہ ثابت ہُوا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی فی الفورم لازم ہوتی ہے اھ مخلصاً(ت)
 (۱؎ فتح القدیر         کتاب الزکوٰۃ        مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر         ۲ /۱۱۴)
فتاویٰ امام قاضی خاں میں ہے:
ھل یأثم بتأخیر الزکوٰۃ بعدالتمکن ذکر الکرخی انہ یأثم وھکذ ا ذکر الحاکم الشھید فی المنتقی وعن محمد ان من اخر الزکوٰۃ من غیر عذرلا تقبل شہادتہ وروی ھشام عن ابی یوسف لایأثم ۲؎ اھ ملخصا۔  

قلت: فقد قدم التاثیم و ما یقدمہ فھوالراجح الاظھر الاشھر عند ہ کما نص علیہ بنفسہ ویکون ھو المعتمد کما صرح بہ الطحطاوی والشامی وغیرہماوکذاقدمہ فی الھدایۃوالکافی۔
آدمی قدرت کے بعد تا خیر زکوٰۃ کی وجہ سے گنہگار ہو گا یا نہیں؟ امام کرخی نے فرمایا: گنہ گار ہوگا۔اسی طرح حاکم شہید نے منتقی میں ذکر کیا ہے۔ امام محمد سے مروی ہے کہ جس شخص نے بغیر عذر زکوٰۃ کو مؤخر کیا اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ ہشام نے امام ابُویُوسف سے نقل کیا کہ وُہ گنہگار نہ ہوگا اھ ملخصاً۔ 

قلت (میں کہتا ہوں کہ)گنہگار ہونا (امام ابویوسف کے حوالے سے) پہلے ذکر کیا ہے اور وہی قاضی خاں کے ہاں راجح، اظہر اور اشہر ہے ، جیسا کہ اس پر خود انہوں نے تصریح کی ہے ، اور یہی معتمد ہے ، جیسا کہ اس پر طحطاوی، شامی اور دیگر لوگوں نے تصریح کی ہے ، اسی طرح ہدایہ اور کافی میں اسی کو مقدم رکھا ہے(ت)
(۲؎ فتاویٰ قاضی خاں     کتاب الزکٰوۃ 	 فصل فی مال التجارۃ  مطبع منشی نولکشورلکھنؤ     ۱ /۱۱۹)
فتاوی عالمگیر یہ میں ہے :
تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتاخیرہ من غیر عذر وفی روایۃ الرازی علی التراخی حتی یأثم عند الموت والا ول اصح کذا فی التھذیب۔ ۱؎
سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فی الفورم لازم ہوجاتی ہے حتیّٰ کہ بغیر عذر تاخیر سے گناہ ہوگا، رازی کی روایت کے مطابق فی الفور لازم نہیں (حتیّٰ کہ مؤخر کرنے سے گناہ نہ ہوگا)البتّہ اسی حالت میں موت آگئی تو  قریب موت گنہگار ہوگا، لیکن پہلا قول اصح ہے جیسا کہ تہذیب میں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ  کتاب الزکوٰۃ فصل فی مال التجارۃ  مطبع منشی نو لکشور لکھنؤ ۱ /۱۱۹)
جواہراخلاطی میں ہے :
یجب الزکوٰۃ علی الفور حتیّ یأثم بتاخیرہ بلا عذروقیل علی التراخی والاول اصح ۲؎ اھ ملخصا۔
زکوٰۃ علی الفور واجب ہوجاتی ہے حتی کہ بغیر عذر مؤخر کر نے سے گناہ گار ہوتا ہے بعض کے نزدیک فی الفور نہیں ہوتی لیکن پہلاقول اصح ہے اھ ملخصاً(ت)
 (۲؎ جواھرالاخلاطی    کتاب الزکوٰۃ     غیر مطبوعہ قلمی نسخہ    ص ۴۳)
مجمع الانہر میں ہے:
قال محمد لاتقبل شہادۃ من لم یؤد زکوٰتہ وھذا یدل علی الفور کما قال الکرخی و علیہ الفتوی۔ ۳؎ ۔
امام محمد نے فرمایا : جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کی شہادت مقبول نہ ہو گی، یہ بات دلالت کر تی ہے کہ زکوٰۃ فی الفورلازم ہوجاتی ہے۔ امام کرخی نے بھی یہی فرمایا ہے ، اور اسی پر فتوٰی ہے(ت)
 ( ۳؎ مجمع الانہر ملتقی الابحر     کتاب الزکٰوۃ        دارحیاء التراث العربی بیروت   ۱ /۱۹۲)
تنویرالابصار و درمختار میں ہے:
(وقیل فوری) ای واجب علی الفور (وعلیہ الفتوی)کما فی شرح الوھبانیۃ (فیاثم بتاخیرہا) بلا عـذر (وترد شھادتہ) لان الامربالصرف الی الفقیرمعہ قرینۃالفور وھی انہ لدفع حاجتہ وھی معجلۃ فمتی لم تجب علی الفورلم یحصل المقصود من الایجاب علی وجہ التمام وتمامہ فی الفتح ۱؎ اھ۔
 (بعض نے کہا کہ زکوٰۃ فوری ہے) یعنی زکوٰۃ فی الفور لازم ہوجاتی ہے (اور اسی پر فتوٰی ہے ) جیسا کہ شرح وہبانیہ میں ہے (تو تاخیر ادائیگی سے گناہ لازم لائے گا) جب تاخیر بغیر عذر ہو (اور ایسے شخص کی شہادت مردود ہے )کیونکہ حکم زکوٰۃ کے ساتھ مصرفِ زکوٰۃ فقراء کا ذکر کرنا اس پر قرینہ ہے کہ فی الفور ادا ئیگی ہو کیونکہ زکوٰۃدینا ضروریاتِ فقیر کو پورا کرنے کیلئے ہوتا ہے اور اس میں تعجیل مقصود ہے اور اگر یہ فی الفورلازم ہی نہ ہو تو کامل طور پر ایجابِ زکوٰۃ کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔تفصیل اس کی فتح میں ہےاھ
 (۱؎ درمختار         کتاب الزکوٰۃ        مطبع مجتبائی دہلی         ۱ /۱۳۰)
Flag Counter